Hospital attack in Afghanistan: Feroze Omar, a breastfeeding woman whose mothers were killed in the Kabul attack

افغانستان میں ہسپتال پر حملہ: فیروزہ عمر، اُن بچوں کو دودھ پلانے والی خاتون جن کی مائیں کابل حملے میں ہلاک ہوئیں


فیروزہ عمر کہتی ہیں کہ میں اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی اور میں جذباتی ہوگئی۔ مجھے ان دوسرے بچوں کا درد نظر آ رہا تھا۔‘

گذشتہ منگل کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں مسلح حملہ آوروں نے ایک ہسپتال پر حملہ کیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے ہسپتال میں موجود زچہ و بچہ وارڈ میں گھسنے کے بعد وہاں اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی جس کے نتیجے میں دو نوزائیدہ بچوں سمیت گیارہ مائیں اور متعدد نرسیں ہلاک ہوئیں۔

 سالہ فیروزہ نے اس حملے کے بارے میں ٹیلیویژن پر سُنا۔۔

وہ خود ایک چار ماہ کے بچے کی ماں ہیں۔

جب وہ اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھیں تو انھیں ان بچوں کا خیال آنے لگا جن کی مائیں اس حملے میں ہلاک ہو گئی تھیں۔

ہمدردی اور ہمت
انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ حملے کا نشانہ بننے والے ہسپتال جا کر ان بچوں کی مدد کریں گی۔ اس کے بعد انھوں نے جو کیا وہ باہمت اور ہمدردی سے سرشار ایک کام تھا۔


’افطاری کا وقت ہونے والا تھا، میں نے اپنے شوہر کو بتایا کہ میں جا کر ان بچوں کی مدد کرنا چاہتی ہوں۔‘
ان کے شوہر فوراً آمادہ ہو گئے اور کہنے لگے کہ وہ اس دوران اپنے چار ماہ کے بچے کو سنبھال لیں گے۔
’وہ ایک نوزائیدہ بچے کی طرف بندوق کا رخ بھی کیسے کر سکتے ہیں‘
افغان سکیورٹی فورسز کو دفاع کے بجائے طالبان پر حملے کرنے کا حکم
’جب آپ افغانستان میں صحافت کرتے ہیں تو کوئی اچھی خبر نہیں ہوتی‘
اس وقت تک افغان سپیشل فورسز نے تقریباً 100 خواتین اور نوزائیدہ بچوں کو حملے کا شکار بننے والے دشتِ برچی ہسپتال سے نکال کر اتاترک چلڈرن ہسپتال منتقل کر دیا تھا۔ یہ ہسپتال فیروزہ کے گھر سے تقریباً دو کلومیٹر دور تھا۔
روتے، بلکتے بچے
فیروزہ نے جتنا فاصلہ طے کیا وہ اتنا زیادہ تو نہیں تھا مگر اس وقت شہر میں خوف و ہراس کی فضا پھیلی ہوئی تھی اور ایسے وقت میں یہ مختصر سفر کافی پُرخطر ’جب میں ہسپتال پہنچی تو میں نے تقریباً 20 بچے دیکھے۔ ان میں سے کچھ زخمی تھے۔ میں نے نرسوں سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ جو بچے بہت زیادہ رُو رہے ہیں، ان کو دودھ پلا دیں۔‘

فیروزہ نے پھر چار بچوں کو یکے بعد دیگرے دودھ پلایا۔

فیروزہ کے ہسپتال آنے سے پہلے چند نرسیں خشک دودھ سے بنا ہوا دودھ فیڈر کے ذریعے بچوں کو دینے کی کوشش کر رہی تھیں۔ مگر ان میں سے کچھ بچے وہ دودھ نہیں پی رہے تھے۔
تھا۔


پُرسکون اثر
فیروزہ نے ان بچوں کی جیسے زندگی بچا لی تھی۔ ’جب ان بچوں کو میں نے دودھ پلایا تو مجھے بہت سکون ملا۔ میں خوش ہوں کہ میں نے ان کی مدد کی۔‘

اور گھر لوٹنے کے بعد ان کے اپنے بیٹے کی باری تھی۔ فیروزہ کہتی ہیں کہ ’تقریباً دو گھنٹوں کے بعد پھر میں نے اپنے بیٹے کو دودھ پلایا۔‘

انھوں نے سوشل میڈیا پر اپنے تجربے کے بارے میں لکھا اور دوسری ماؤں سے کہا کہ وہ ہسپتال جا کر روتے بچوں کی مدد کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ خواتین سامنے آئی ہیں اور انھوں نے بچوں کو دودھ پلانے کی حامی بھری ہے۔

حملے کی رات کے بعد فیروزہ بدھ اور جمعرات کو بھی ہسپتال گئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ ایسا صرف اس لیے کر سکیں کیونکہ ان کے شوہر ان کی اس کام میں مدد کرتے ہیں۔

جنگی جرم
اس حملے کی اب تک کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے اسے جنگی جرم قرار دیا ہے۔

کابل میں حکومت نے اس واقعے کے ذمہ داران کی تلاش شروع کی ہوئی ہے۔

کابل گذشتہ کئی برسوں سے جنگ اور تباہی دیکھ رہا ہے مگر اس ہفتے کے واقعے کو اس دور کے بدترین واقعات میں سے ایک مانا جائے گا۔

فیروزہ کہتی ہیں کہ ناختم ہونے والے تشدد کو دیکھ دیکھ کر وہ تنگ آ چکی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ماؤں کے ہاتھوں میں کھیلنے کے بجائے ہسپتالوں میں بچے اجنبیوں کا دودھ پی رہے ہیں۔‘

پیشے کے لحاظ سے فیروزہ ایک ماہرِ نفسیات ہیں۔ وہ افغان معاشرے کی بحالی اور صحت یابی میں اہم کردار ادا کرنا چاہتی ہیں۔

’بچہ پالنے کے تیار ہوں‘
ان کی کئی دوستوں نے ان سے رابطہ کیا ہے کہ جن بچوں کو ماؤں کا دودھ نہیں مل سکتا ان بچوں کے لیے دودھ اور پیمپرز کے پیسے اکھٹے کیے جائیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’جو بچے زخمی نہیں ہیں انھیں اب ہسپتال سے فارغ کیا جا رہا ہے۔ مگر ان کے پاس واپس جانے کے لیے کوئی فیملی نہیں ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ اب میری ترجیح یتیم بچے ہو گی۔ ’میں خوشی سے ایک بچے کی ذمہ داری لے کر اسے اپنے بیٹے کے ساتھ پالنے کے لیے تیار ہوں۔‘


Post a Comment

0 Comments